Monday, June 6, 2011

اک دھوم ہے عرشِ اعظم پر مہمان خدا (عزوجل) کے آتے ہیں


ہیں صف آراء سب حور و ملک اور غلماں خلد سجاتے ہیں

ہیں صف آراء سب حور و ملک اور غلماں خلد سجاتے ہیں
اک دھوم ہے عرشِ اعظم پر مہمان خدا (عزوجل) کے آتے ہیں

ہے آج فلک روشن روشن ہیں تارے بھی جگمگ جگمگ
محبوب (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) خدا کے آتے ہیں محبوب خدا کے آتے ہیں

قربان میں شان و عظمت پر سوئے ہیں چین سے بستر پر
جبرائیل امیں (علیہ السلام) حاضر ہو کر معراج کا مژدہ سناتے ہیں

جبریل (علیہ السلام) بُراق سجا کرکے فردوس بریں سے لے آئے
بارات فرشتوں کی آئی معراج کو دولہا جاتے ہیں

ہے خلد کا جوڑا زیب بدن رحمت کا سجا سہرا سر پر
کیا خوب سہانا ہے منظر معراج کو دولہا جاتے ہیں

ہے خوب فضا مہکی مہکی چلتی ہے ہوا ٹھنڈی ٹھنڈی
ہر سمت سماں ہے نورانی معراج کو دولہا جاتے ہیں

یہ عزّ و جلال اللہ اللہ (عزوجل) یہ اوج و کمال اللہ اللہ (عزوجل)
یہ حُسن و جمال اللہ اللہ (عزوجل) معراج کو دولہا جاتے ہیں

دیوانو ! تصّور میں دیکھو اسرٰی کے دولہا کا جلوہ
جھرمٹ میں ملائک لے کر انہیں معراج کا دولہا بناتے ہیں

اقصٰی میں سواری جب پہنچی جبریل نے بڑھ کے کہی تکبیر
نبیوں کی امامت اب بڑھ کر سلطانِ جہاں(صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں

وہ کیسا حسیں منظر ہوگا جب دولہا بنا سرور ہوگا
عُشاق تصّور کر کر کے بس روتے ہی رہ جاتے ہیں

یہ شاہ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) نے پائی سعادت ہے خالق (عزوجل) نے عطا کی زیارت ہے
جب ایک تجلی پڑتی ہے موسٰی (علیہ السلام) تو غَش کھا جاتے ہیں

جبریل (علیہ السلام) ٹھہر کر سدرہ پر بولے جو بڑھے ہم ایک قدم
جل جائیں گے سارے بال و پَر اب ہم تو یہیں رہ جاتے ہیں

اللہ (عزوجل) کی رحمت سے دلبر (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) جا پہنچے دَنَا کی منزل پر
اللہ (عزوجل) کا جلوہ بھی دیکھا دیدار کی لذّت پاتے ہیں

معراج کی شب تو یاد رکھا پھر حشر میں کیسے بھولیں گے
عطار اسی اُمید پہ ہم دن اپنے گزارے جاتے ہیں

قصیدہ نور


صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا
صدقہ لینے نور کا آیا ہے تارا نورکا
باغ طیبہ میں سہانا پھول پھولا نور کا
مست بوہیں بلبلیں پڑھتی ہیں -کلمہ نور کا
بارھویں کے چاند کا مجرا ہے سجدہ نور کا
بارہ برجوں سے جھکا اک اک ستارا نور کا
ان کے قصر قدر سے خلد ایک کمرہ نور کا
سدرہ پائیں باغ میں ننھا سے پودا نور کا
عرش بھی فردوس بھی اس شاہ والا نور کا
یہ مثمن برج وہ مشکوئے اعلیٰ نور کا
آئی بدعت چھائی ظلمت رنگ بدلا نور کا
ماہ سنت مہر طلعت لے لے بدلا نور کا
تیرے ہی ماتھے رہا اے جان سہرا نور کا
بخت جاگا نور کا چمکا ستارا نور کا
میں گدا تو بادشاہ بھردے پیالہ نور کا
نور دن دونا تیرا دے ڈال صدقہ نور کا
تیرے ہی جانب ہے پانچوں وقت سجدہ نور کا
رخ ہے قبلہ نور کا ابرو ہے کعبہ نور کا
پشت پر ڈھلکا سر انور سے شملہ نور کا
دیکھیں موسیٰ طور سے اترا صحیفہ نور کا
تاج والے دیکھ کر تیرا عمامہ نور کا
سر جھکاتے ہیں الٰہی بول بالا نور کا
بینئ پر نور رخشاں ہے بکہ نور کا
ہے لواء الحمد پراڑتا پھریرا نور کا
مصحف عارض یہ ہے خط شفیعہ نور کا
لوسیہ کارو مبارک ہو قبالہ نور کا
آب زر بنتا ہے عارض پر پسینہ نور کا
مصحف اعجاز پر چڑھتا ہے سونا نور کا
پیچ کرتا ہے فدا ہونے کو لمعہ نور کا
گرد سر پھرنے کو بنتا ہے عمامہ نور کا
ہیبت عارض سے تھر آتا ہے شعلہ نور کا
کفش پاپر گر کے بن جاتا ہے گپھا نور کا
شمع دل مشکوٰۃ تن سینہ زجاجہ نور کا
تیری صورت کے لئے آیا ہے سورہ نور کا
میل سے کس درجہ ستھرا ہے وہ پتلا نور کا
ہے گلے میں آج تک کوراہی کرتا نور کا
تیرے آگے خاک پر جھکتا ہے ماتھا نور کا
نور نے پایا ترے سجدے سے سیما نور کا
تو ہے سایہ نور کا ہر عضو ٹکڑا نور کا
سایہ کا سایہ نہ ہوتا ہے نہ سایہ نور کا
کیا بنا نام خدا اسریٰ کا دولہا نور کا
سر پہ سہرا نور کا بر میں شہانہ نور کا
بزم وحدت میں مزا ہوگا دو بالا نور کا
ملنے شمع طور سے جاتا ہے اکہ نور کا
وصف رخ میں گاتی ہیں حوریں ترانہ نور کا
قدرتی بینوں میں کیا بجتا ہے لہرا نور کا
یہ کتاب کن میں آیا طرفہ آیہ نور کا
غیر قائل کچھ نہ سمجھا کوئی معنی نور کا
دیکھنے والوں نے کچھ دیکھا نہ بھالا نور کا
من رای کیسا ؟ یہ آئینہ دکھایا نور کا
صبح کردی کفر کی سچا تھا مژدہ نور کا
شام ہی سے تھا شب تیرہ کو دھڑکا نور کا
پڑتی ہے نوری بھرن امڈا ہے دریا نور کا
سر جھکا اے کشت نظر آتا ہے اہلا نور کا
ناریوں کا دور تھا دل جل رہا تھا نور کا
تم کو دیکھا ہوگیا ٹھنڈا کلیجا نور کا
نسخ ادیاں کرکے خود قبضہ بٹھایا نور کا
تاجور نے کرلیا کچا علاقہ نور کا
جو گدا دیکھو لئے جاتا ہے توڑا نور کا
نور کی سرکار سے کیا اس میں توڑا نور کا
بھیک لے سرکار سے لاجلد کا سہ نور کا
ماہ نوطیبہ میں بٹتا ہے مہینہ نور کا
دیکھ ان کے ہوتے نازیبا ہے دعویٰ نور کا
مہر لکھ دے یاں کے ذروں کو مچلکہ نور کا
یاں بھی داغ سجدہ طیبہ ہے تمغا نور کا
اے قمر کیا تیرے ہی ماتھے ہے ٹپکا نور کا
شمع ساں ایک ایک پروانہ ہے اس بانور کا
نور حق سے لو لگائے دل میں رشتہ نورکا
انجمن والے ہیں انجم بزم حلقہ نور کا
چاند پرتاروں کی جھرمٹ سے ہے ہالہ نور کا
تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عین نور تیرا سب گھرانا نور کا
نور کی سرکار سے پایا دو شالہ نور کا
ہو مبارک تم کو ذوالنورین جوڑا نور کا
کس کے پردے نے کیا آئینہ اندھا نور کا
مانگتا پھرتا ہے آنکھیں ہر نگینہ نور کا
اب کہاں وہ تابشیں کیسا وہ تڑکا نور کا
مہر نے چھپ کرکیا خاصہ دھندلکا نور کا
قبر انور کہئے یا قصر معلی نور کا
چرخ اطلس یا کوئی سادہ سا قبہ نور کا
آنکھ مل سکتی نہیں در پر ہے پہرا نور کا
تاب ہے بے حکم پر مارے پرندہ نور کا
نزع میں لوٹے گا خاک در پہ شیدا نور کا
مرکے اوڑھے گی عروس جاں دوپٹہ نور کا
تاب مہر حشر سے چونکے نہ کشتہ نور کا
بوندیں رحمت کی دینے آئیں چھینٹا نور کا
وضع واضع میں تری صورت ہے معنی نور کا
یوں مجازا چاہیں جس کو کہہ دیں کلمہ نور کا
انبیاء اجزاہیں تو بالکل ہے جملہ نور کا
بھیک تیرے نام کی ہے استعارہ نور کا
سرمگیں آنکھیں حریم حق کے وہ مشکیں غزال
ہے فضائے لامکاں تک جن کارمنا نور کا
تاب حسن گرم سے کھل جائینگے دل کے کنول
نو بہاریں لائیں گے گرمی کا جھلکا نور کا
ذرے مہر قدس تک تیرے توسط سے گئے
حد اوسط نے کیا صغریٰ کو کبریٰ نور کا
سبزہ گردوں جھکا تھا بہر مایوس براق
پھر نہ سیدھا ہوسکا کھایا ہو کوڑا نور کا
تاب سم سے چوندھیا کر چاند انہیں قدموں پھرا
ہنس کے بجلی نے کہا دیکھا چھلاوا نور کا
دید نقش سم کو نکلی سات پردوں سے نگاہ
پتلیاں بولیں چلو آیا تماشا نور کا
عکس سم نے چاند سورج کو لگائے چار چاند
پڑگیا سیم و زر گردوں پہ سکہ نور کا
چاند جھک جاتا جدھر انگلی اٹھاتے مہد میں
کیا ہی چلتا تھا اشاروں پر کھلونا نور کا
ایک سینہ تک مشابہ اک وہاں سے پاؤں تک
حسن سبطین ان کے جاموں میں ہے نیما نور کا
صاف شکل پاک ہے دونوں کے ملنے سے عیاں
خط تو ام میں لکھا ہے یہ دو ورقہ نور کا
ک گیسو ہ دہن ی ابرو آنکھیں ع ص
کھیعص ان کا ہے چہرہ نور کا
اے رضا یہ احمد نوری کا فیض نور ہے
ہوگئی میری غزل بڑھ کر قصیدہ نور کا